لٹا دئیے تھے کبھی جو خزانے ڈھونڈھتے ہیں
نئے زمانے میں کچھ دن پرانے ڈھونڈھتے ہیں

کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے میں وہ لمØ+ہ ہوں
کہ اک زمانے سے جس کو زمانے ڈھونڈھتے ہیں

Ú©Ú†Ú¾ اØ+تیاط بھی اب Ú©Û’ طلب میں رکھنا Ù¾Ú‘ÛŒ
سو اس کو اور کسی کے بہانے ڈھونڈھتے ہیں

لپک کے آتے ہیں سینے کی سمت تیر ایسے
پرند شاخ پہ جیسے ٹھکانے ڈھونڈھتے ہیں

ہماری سادہ مزاجی بھی کیا قیامت ہے
کہ اب قفس ہی میں ہم آشیانے ڈھونڈھتے ہیں